سنی ان سنی

اگر آپ اردو پڑھاتی/ پڑھاتے ہیں اور وقفے وقفے سے طلبا کی سمعی مہارت کی جانچ کرتے ہیں تو یہاں آپ پائیں گے 'سمعی مہارت کی سرگرمیاں' ۔ ان سرگرمیوں سے طلبا کے فہم میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کا تلفظ بہتر ہوتا ہے۔ہم نے مشقوں کو درجات میں تقسیم کیا ہے۔ بہرحال طلبا کی صلاحیت اور اپچ کے مطابق موزوں سرگرمی کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ مختلف انداز سے بچوں کی سمعی مہارت کی جانچ کے لیے ہر سرگرمی میں آڈیو کے ساتھ دو یا تین مشقیں دی گئی ہیں۔ہمیں ضرور بتائیے گا کہ ہم اپنی زنبیل میں کن نئی مشقوں کا اضافہ کر سکتے ہیں یا ان سرگرمیوں کو مزید بہتر کیسے بنا سکتے ہیں۔اس کے علاوہ آپ ہمیں اپنی تیار کردہ سرگرمی بھی بھیج سکتی/ سکتے ہیں۔ اسے ہم تدوین کے بعد زنبیل کے صارفین کے لیے پیش کریں گے اور شکریے کے ساتھ آپ کے تعاون کے اعتراف کریں گے۔ 
-          زینہ اول 

-          زینہ دوم

-          زینہ سوم

سمعی مہارت کی مشقیں

اسجد میاں صبح جلدی اٹھتے ہیں اور سب سے پہلے اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ پھر اسجد میاں اسکول جانے کی تیاری کرتے ہیں۔ وہ دانتوں کو اچھی طرح صاف کرتے ہیں۔ ان کے دانت چمکیلے ہیں۔ پھر وہ منہ، ہاتھ اور پیر دھوتے ہیں۔ پھر اسجد میاں یونیفارم پہنتے ہیں۔ ان کی قمیص کا رنگ سفید اور پینٹ کا رنگ نیلا ہے۔ پھر اسجد میاں ناشتہ کرتے ہیں جو ان کی امی جان تیار کرتی ہیں۔ اسجد کے اباجان انہیں اسکول چھوڑ کر آتے ہیں۔ جانے سے پہلے وہ امی جان کو السلام علیکم اور اللہ حافظ کہتے ہیں۔
آج بلال میاں کا نئی جماعت میں پہلا دن ہے۔ ان کو کلاس میں سب سے آگے جگہ ملی۔ انہوں نے برابر والی کرسی پر بیٹھے ہوئے بچے کو کہا، “السلام علیکم”۔ اس بچے نے جواب دیا، “وعلیکم السلام”۔ بلال میاں نے اس بچے سے پوچھا، “آپ کا کیا نام ہے؟” اس بچے نے بتایا کہ اس کا نام اکبر ہے۔ بلال اور اکبر باتیں کرنے لگے اور جلد ہی دوست بن گئے۔ پھر ان کی استانی کلاس میں آ گئیں۔ ان کا نام مس ہما ہے۔ وہ ریاضی پڑھاتی ہیں۔
عنایہ کو پیاس لگی۔ اس نے جگ سے ایک گلاس پانی نکالا۔ عنایہ نے چلتے چلتے پانی پینا شروع کیا اور گلاس گرا دیا۔ فرش پر پانی پھیل گیا۔ عنایہ نے فرش صاف کرنے کا پوچھا لا کر پانی صاف کیا  اور ہاتھ دھوئے۔ اس کے بعد ایک اور گلاس پانی نکالا۔ اب عنایہ نے کرسی پر بیٹھ کرپہلے بسم اللہ پڑھی۔ اس کے بعد تین سانس میں آہستہ آہستہ پانی پیا۔ آخر میں عنایہ نے الحمداللہ کہا۔ عنایہ کی پیاس بجھ گئی۔
عمارہ آٹھویں کلاس میں پڑھتی ہیں۔ عمارہ کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ پڑھنے کے بعد عمارہ اپنی کتابوں کو خیال سے رکھتی ہیں۔ اب ان کا ایک چھوٹا سا کتب خانہ بن گیا ہے۔ عمارہ کو نئی کتابوں کے لیے اکثر پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ عمارہ کو اس کا ایک حل سمجھ میں آیا۔ انہوں نے اپنے بابا سے اجازت لی کہ وہ پڑوس کے ایک یا دو بچوں کو ٹیوشن پڑھائیں گی اور ان کی فیس کو کتابیں خریدنے کے لیے استعمال کریں گی۔ بابا نے اجازت دے دی۔ عمارہ کے پاس اب دو بچے پڑھنے آتے ہیں۔ عمارہ کی امی ان بچوں کو قرآن بھی پڑھا دیتی ہیں۔
شکیلہ بیگم ایک دفتر میں کام کرتی ہیں۔ ان کا ایک چھوٹا بیٹا شہیر ہے جس کے لیے انہیں ایک دیکھ بھال کرنے والی خاتون کی ضرورت تھی۔ انہوں نے اپنی دوست صفیہ سے مدد مانگی۔ ان کی دوست نے خوشی خوشی حامی بھر لی۔ صفیہ آنٹی اب شہیر کا خیال رکھتی ہیں۔ وہ اسے کھانا کھلاتی ہیں اور اس سے باتیں کرتی ہیں۔ وہ شہیر کو چھوٹی چھوٹی کہانیاں بھی سناتی ہیں۔ جب شکیلہ شام میں شہیر میاں کو لینے آتی ہیں تو وہ اپنی اماں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ شکیلہ بیگم اپنی دوست کو جزاک اللہ کہتی ہیں اور ہر ہفتے ان کے لیے کوئی خاص کھانا بناتی ہیں۔
ڈاکٹر ابراہیم کا کلینک ہمارے محلے میں ہے۔ وہ بہت اچھے ڈاکٹر ہیں اور مریضوں کا خیال رکھتے ہیں۔ وہ ہر مریض سے خوش اخلاقی سے بات کرتے ہیں۔ وہ چھوٹے بچوں سے مسکرا کر ملتے ہیں اور انہیں اسٹیکرز بھی دیتے ہیں۔ بچے انہیں بہت پسند کرتے ہیں۔ بڑے بھی ڈاکٹر ابراہیم کو پسند کرتے ہیں۔ سب ان کی دی ہوئی ہدایات پر عمل کرتے ہیں اور دوا پابندی سے کھاتے ہیں۔ ڈاکٹر ابراہیم کو اپنا کام بہت پسند ہے۔
ساحر اور طاہر جڑواں بھائی ہیں۔ وہ دیکھنے میں بالکل ایک جیسے ہیں لیکن ان کی عادتیں مختلف ہیں۔ ساحر کو کھیل پسند ہیں خصوصاً باسکٹ بال اور بیڈمنٹن۔ ساحر کو باتیں کرنے کا شوق ہے۔ ساحر اسکول سے آتے ہی، امی کو سارے دن کی روداد اونچی آواز سے سناتے ہیں۔ طاہر کو کتابیں پڑھنا پسند ہے۔ طاہر زیادہ تر خاموش رہتے ہیں۔ طاہر کو اپنا کمرہ صاف رکھنا پسند ہے۔ اسی لیے طاہر اپنی چیزوں کو ترتیب سے رکھتے ہیں۔ ساحر اور طاہر ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں۔
عیشہ کو نئی نئی کتابیں پڑھنا اچھا لگتا ہے۔ عیشہ نے اس ہفتے بھی اسکول کے کتب خانے سے ایک کتاب لی ہے۔ اس میں بہت سی دلچسپ کہانیاں ہیں۔  عیشہ کو یہ کتاب سات دن میں واپس کرنی ہے۔ عیشہ کی استانی نے سکھایا ہے کہ جب بھی ہم کچھ پڑھںے بیٹھیں تو اس سے پہلے علم میں اضافے کی دعا کرنی چاہیے۔ عیشہ نے دعا پڑھ کر کتاب پڑھنی شروع کی اور چار دن میں مکمل کر لی۔ اب عیشہ یہ کتاب اسکول کو واپس کر سکتی ہیں تاکہ وہ ایک اور کتاب ادھار لے سکیں۔
اریج اور امین امی کے ساتھ بیکری گئے۔ امی کو بسکٹ اور چپس خریدنے تھے۔ اریج بٹیا کو وہاں اسٹرابیری کپ کیک اچھا لگا۔ امین میاں کو براونی پسند آئی۔ دونوں نے امی سے پوچھا کہ کیا وہ ان کے لیے یہ چیزیں خرید سکتی ہیں؟ امی جان نے ان کی بات مان لی۔ امی نے اریج اور امین کو ان کی پسند کی چیزیں دلا دیں۔ امین میاں نے فوراً پیکٹ کھول کر کھانا چاہا تو امی نے منع کر دیا۔ امی نے انہیں بتایا کہ کچھ کھانے سے پہلے ہاتھ دھوتے ہیں اور بسم اللہ پڑھتے ہیں۔ امین میاں نے امی کی بات مان لی۔
آمنہ  بٹیا کو کچھ دنوں سے ایک شکایت محسوس ہو رہی ہے۔ انہیں اسکول میں تختہ سیاہ پر لکھی ہوئی تحریر پڑھنے میں مشکل ہوتی ہے۔ وہ کلاس کے نوٹس بورڈ پر لگی ہوئی معلومات بھی نہیں پڑھ پا رہیں۔ آمنہ نے امی جان کو اپنا مسئلہ بتایا توامی جان انہیں آنکھوں کی ڈاکٹر کے پاس لے گئیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے آمنہ کی آنکھوں کا معائنہ کیا اور بتایا کہ ان کی دور کی نظر خراب ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے آمنہ کے لیے چشمہ تجویز کیا اور ان سے کہا کہ کلاس میں آگے والی بینچ پر بیٹھیں۔ امی جان نے گھر آ کر آمنہ کے لیے گاجروں کے رس کا ایک گلاس تیار کیا اور اس کے علاوہ آمنہ کو ایک دعا بھی سکھائی جو آمنہ نے یاد کر لی۔
کاشف میاں کی دو بڑی بہنیں ہیں، شفا اور دعا۔ آج موسم بہت اچھا ہے اس لیے تینوں بچوں نے اپنے والدین سے فرمائش کی ہے کہ شام میں کسی قریبی پارک چلیں۔ اباجان نے حامی بھر لی ہے۔ امی کو بھی یہ خیال اچھا لگا ہے۔ امی نے جلدی سے کچھ سینڈوچز بنائے ہیں۔ شفا اور دعا نے سینڈوچز بنانے میں ان کی مدد کی ہے۔ امی جان نے چائے اور کچھ پھل بھی باسکٹ میں رکھ لیے ہیں۔ کاشف میاں نے چادر اور پانی کی بوتلیں گاڑی میں رکھ دی ہیں۔ اب سب تیار ہیں اور گاڑی میں بیٹھ چکے ہیں۔ گاڑی چلنے سے پہلے امی نے سب سے کہا کہ سفر کی دعا پڑھ لیں۔
ہما بیگم کو کچھ سامان خریدنے کے لیے بازار جانا تھا۔ وہ گھر سے نکلیں اور قریبی سپرمارکیٹ پہنچ گئیں۔ اس مارکیٹ میں قریباً سبھی کچھ ملتا ہے۔ ہما بیگم نے باورچی خانے کے استعمال کی چیزیں اور کچھ مصالحے لیے۔ انہوں نے کچھ سبزیاں اور کچھ پھل بھی خریدے۔ گائے کے گوشت کے علاوہ انہوں نے تازہ پالک اور لوکی، رسدار نارنگی، جامنی انگور اور جامن بھی خریدے۔ گھر پہنچتے ہی ہما نے سب سے پہلے پھل دھو کر گھر والوں کو دیئے۔ اس کے بعد وہ کھانے کی تیاری میں مصروف ہو گئیں۔ گھر کے سب افراد نے خیال رکھنے پر ہما کو شکریہ اور جزاک اللہ  کہا۔ 
مہرین بٹیا صبح جلدی اٹھ جاتی ہیں اور اسکول کے لیے خود ہی تیار ہوتی ہیں۔ آج مہرین کے اسکول میں تقریری مقابلہ ہے اور مہرین نے اس کی بہت اچھی تیاری کی ہے۔ مہرین کی امی جانتی ہیں کہ اسکول جانے سے پہلے اور کسی بھی مقابلے سے پہلے اچھا ناشتہ کرنا ضروری ہے تاکہ طاقت اور توانائی ملے۔ انہوں نے مہرین بٹیا کو ابلے ہوئے انڈے اور کھجور کے علاوہ دودھ کا ایک کپ ناشتے میں دیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے آدھی چھٹی کے لیے ٹفن میں پھل اور بسکٹ رکھ دیئے۔ مہرین بٹیا خوش ہو گئیں۔
ثروت اپنی دوست ماریہ کے ساتھ مارکیٹ گئیں۔ انہیں اپنے لیے کچھ کپڑے خریدنے تھے۔ وہ ایک اسٹور میں داخل ہوئیں جس میں مناسب قیمت میں اچھے کپڑے مل جاتے ہیں۔ ثروت کو وہاں گلابی رنگ کا ایک کرتا پسند آیا۔ انہوں نے ماریہ سے مشورہ مانگا۔ ماریہ نے انہیں بتایا کہ وہ کرتا ان پر اچھا لگے گا۔ اس کرتے کے علاوہ ثروت نے کچھ رنگین دوپٹے اور اسکارف بھی خریدے۔ اسی اسٹور میں انہیں اپنے بستر کے لیے ایک چادر بھی پسند آ گئی۔ انہوں نے سب چیزیں اپنی دوست کے مشورے سے خریدیں۔ مشورہ کرنا اچھی بات ہے۔
اذان نے گھر پر دو سال پہلے سفید رنگ کروایا تھا۔ اب اذان کو سفید رنگ سے اکتاہٹ ہونے لگی ہے۔ انہوں نے سوچا کہ اس سال کوئی مختلف رنگ کروائیں۔ انہوں نے مختلف رنگوں کے متعلق سوچا۔ ان کے خیال میں سرخ رنگ سے گھر بہت نمایاں ہو جائے گا۔ نیلا رنگ بھی انہیں پسند نہیں۔ اذان کے خیال میں نیلے رنگ سے گھر اداس لگتا ہے۔ انہوں نے پیلا رنگ بھی پسند نہیں کیا کہ پیلا بہت چمکتا ہوا محسوس ہو گا۔ آخر میں انہیں سبز رنگ کا خیال آیا۔ اذان کے خیال میں اس سے گھر پر سکون لگے گا۔ سبز رنگ آنکھوں کے لیے بھی بہت اچھا ہوتا ہے۔