جس کا کام اسی کو ساجھے-اور کرے تو ٹھینگا باجے

“مس، آپ اس سے کہیے گا کہ گھر پہنچ کر کھانا ضرور کھایا کرے، آپ کی بات مانتا ہے میرا بیٹا۔۔۔”

میں ایک پرائمری اسکول میں سائنس پڑھاتی ہوں اور مجھے پیرنٹ ٹیچر میٹنگز میں اکثر اس قسم کی درخواستیں سننے کو ملتی ہیں۔ 

“مس، آپ کی بات بہت مانتا ہے، آپ اسے کہیے گا کہ لنچ باکس میں میں نے اس کی پسند کی چیز دی ہے، وہ کھا لے۔”

“آپ سے ڈرتا ہے، آپ کہیں گی تو آئندہ جھوٹ نہیں بولے گا۔”

“مس، یہ بہت شرارتی ہیں اور کپڑے بہت گندے کر لیتی ہیں، آپ سمجھائیے گا پلیز۔”

اور میں ان ماوں کو تسلی دیتے ہوئے سوچ رہی ہوتی ہوں کہ کیا واقعی۔۔۔؟ کیا میں واقعی ایسا سکتی ہوں؟ اور اچانک میرے ذہن میں سلطان راہی صاحب چلے آتے ہیں۔۔۔

‘نئیں اوئے!!!!!”

اور مجھے اندازہ ہوتا ہے  ٹھہر جا! کہیں کچھ گڑ بڑ ہے۔ یہ میرا کام ہے؟ یا یہ انہی ماوں کا کام ہے؟ 

سوچ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ میں اپنے کاموں میں مصروف رہتی ہوں اور بے خیالی سے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہوں۔ 

میں اپنی ماں کو دیکھتی ہوں، وہ میرے لباس اور کھانے کا خیال رکھتی ہیں، ملیے یا ملگجے)بے استری شدہ( کپڑے پہن کا گھر سے باہر جانا منع ہے، آخر کو میں ٹیچر ہوں، “تم اپنے بچوں کا کیا یہی سکھاو گی؟” وہ پوچھتی ہیں۔

میرے سر میں تیل لگا کر مالش کرتی ہیں تاکہ دماغ کی رگیں کھلیں اور دماغ تیز چلے )میں ان کو سمجھاتی ہوں کہ سائنسی بنیادوں پر ایسا ممکن نہیں( وہ پوچھتی ہیں کہ “میں تماری ماں ہوں یا تم میری؟” 

انہیں میری پسند کے کھانوں کا علم ہے لیکن اس کا اثر گھر میں پکنے والے کھانے پر بالکل نہیں پڑتا، پکتا وہی ہے جو میرے لیے ‘صحت بخش’ ہوتا ہے۔ میری ان سے بھلے جنگ ہو جائے، لیکن ہر روز میری پسند کا کھانا نہیں ملے گا۔ ہاں، روز صحت اور تندرستی دینے والا کھانا ضرور ملے گا، یہی گھر کا اصول ہے۔

میری امی کو علم ہے کہ مجھے پڑھنے اور اسکول کے کام نمٹانے کے لیے خاطرخواہ وقت چاہیے اور پڑھنے پڑھانے کے کاموں سے مستقل آنکھوں اور دماغ پر زور پڑتا ہے، اور وہ مجھے اس کے لیے بھرپور وقت دیتی ہیں لیکن پھر میری آنکھوں میں زیتون کا تیل لگانا نہیں بھولتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہر ماں کی یہی ذمہ داریاں ہیں۔

میری امی اعلی تعلیم یافتہ ہیں اور انہوں نے بہتیری پیرنٹ ٹیچر میٹنگز میں شرکت کی ہے لیکن کبھی میری ٹیچرز کو یہ نہیں کہا کہ میری بیٹی کو کھانے کے لیے کہیں، اس سے کہیں کہ سیدھی بیٹھا کرے، اس کو سمجھائیں کہ جھوٹ نہ بولا کرے۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ سب ذمہ داریاں ماں باپ کی ہیں، ٹیچرز کی نہیں۔

ٹیچرز کا کام ہے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھانا۔ انہیں  بتانا کہ قلم کیسے پکڑتے ہیں اور نظمیں کیسے یاد کرتے ہیں۔ انہیں مشکل الفاظ کے معانی سمجھانا اور مشکل تصورات سے آگاہی دینا۔ 

کھانا، لباس، آداب، زندگی گزارنے کے اچھے طور طریقے اور گھر کی روایات۔ یہ سب سکھانا ماں باپ کا کام ہے۔ اپنا کام خود کریں کیونکہ آپ سے بہتر یہ کوئی نہیں کر سکتا۔ اپنی ذمہ داری ٹیچر پر نہ ڈالیں، اسے اس کا کام احسن طریقے سے کرنے دیں۔