میں اچھی ٹیچر تو بن سکتی ہوں لیکن اچھی ماں کبھی نہیں بن سکتی
میری دوست آٹزم کا شکار بچوں کو پڑھاتی ہے۔ مجھے یاد ہے بہت سال پہلے مجھے میری ایک دوست نے بتایا تھا، “آج میں نے اپنی کلاس کے بچوں کو سکھایا کہ صحیح بٹن کیسے دباتے ہیں۔۔۔ )آٹزم میں مبتلا بچوں کی سیکھنے کی رفتار دیگر بچوں کے مقابلے میں نسبتاً کم ہوتی ہے( لیکن گھر پر۔۔۔!!! اف، میرے بچے مجھے پاگل کر دیتے ہیں!” اور پھر اس نے وہ تاریخی الفاظ کہے۔۔۔ “میں اچھی ٹیچر تو بن سکتی ہوں لیکن اچھی ماں کبھی نہیں بن سکتی۔۔۔!”
عجیب سی بات لگتی ہے لیکن بحیثیت ٹیچر ہم بہت صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں، مستقل مزاجی سے سکھاتے ہیں اور شاید کافی حد تک نظم و ضبط بھی قائم کر لیتے ہیں۔ لیکن اپنے ہی گھر میں، میں ان تمام معاملات میں تقریباً ناکام ہو جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا نہیں ہے کہ ماں ہونا اہم نہیں یا یہ کہ ہم خدانخواستہ اپنے بچوں سے زیادہ اپنے طلبا سے پیار کرتے ہیں۔ ایسا قطعاً نہیں ہے۔
بات یہ ہے کہ ہم انسان ہیں اور انسانوں کو اس طرح کے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے جب وہ دو دنیاوں میں بٹے ہوئے ہوں۔
اسکول کی دنیا: وہاں بحیثیت ٹیچر ہمیں ایک مثالی دنیا فراہم کی جاتی ہے؛ مثلاً وہ ایک ایسی دنیا جہاں میں آنے والے وقت کی منصوبہ بندی کر سکتی ہوں، جہاں صفائی اور کھانا بنانا کسی اور کا کام ہے )یہ ایسے پہاڑ ہیں جو آپ کو روز سر کرنے ہوتے ہیں(، جہاں بعض اوقات فون پر بات کرنا بھی کسی اور کا کام ہوتا ہے، یعنی مجھے اپنی مخصوص ذمہ داری پر توجہ مرکوز کرنی ہوتی ہے اور صرف اسی پر توجہ دینی ہوتی ہے۔
گھر کی دنیا: گھر پر، میں اکثر نیند پوری نہیں کر پاتی، اور سارے کام مکمل کرنے کے لیے کسی مداری کی طرح کرتب دکھا رہی ہوتی ہوں۔ گھر پر میں صرف ‘ماں’ نہیں ہوں، میں خانساماں بھی ہوں، دھوبی بھی ہوں، ملازمہ بھی ہوں، فون کال بھی سنتی ہوں، اور رات میں بچوں کی نرس بھی ہوں۔ صرف میں ہی نہیں، ساری مائیں اور سارے باپ جو بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہیں، کم و بیش اسی صورتحال سے گزر رہے ہیں۔
میں پوری جان لڑا کر بھی ویسی ماں نہیں بن سکتی جیسی میں ٹیچر ہوں۔ آخر کیوں؟
ہم اپنے بچوں سے بے پناہ پیار کرتے ہیں، شاید اپنی زندگی سے بھی زیادہ۔
لیکن ہم ان پر غصہ کرتے ہیں؛ چیختے ہیں، ان کے معاملات میں بہت جلد ہار مان لیتے ہیں، ہم اپنے بچوں کو موبائل فون اور ٹی وی کے حوالے کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی؛ تربیت کی ذمہ داری۔ مجھے کوفت ہوتی ہے کہ میں انہیں اسی انداز میں اپنی بات نہیں سمجھا پاتی جیسے کہ میں اپنی کلاس میں بچوں کو سمجھا پاتی ہوں۔
اور مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا۔
میری بیٹی کو اسکول میں بہت اچھی ٹیچرز پڑھاتی ہیں، مجھے ان پر اعتماد ہے۔ گھر پر میری بیٹی کو استانی کی ضرورت نہیں، اسے ماں کی ضرورت ہے۔ میری بچے گھر پر مجھ سے وہی سیکھنا چاہتے ہیں جو میں گھر پر کرتی ہوں؛ میں گھر پر موجود بڑوں سے کیسے بات کرتی ہوں؛ میں کھانا پکانے اور گھر کی صفائی کے کاموں کو اچھے طریقے سے کیسے کرتی ہوں؛ میں پڑوسی خواتین سے کیسے بات کرتی ہوں؛ میں اپنا خیال رکھتی ہوں یا نہیں وغیرہ وغیرہ۔ میرے بچے مجھ سے یہ سیکھتے ہیں کہ کبھی کبھار ہمت ہارنا بھی ٹھیک ہے، لیکن پھر دوبارہ کھڑا ہونا ہی زندگی ہے۔ میں اپنے بچوں کو یہ سکھا سکتی ہوں کہ گھر میں مختلف کاموں کے اصول طے ہیں لیکن بعض اوقات محبت کے مارے ہم گھر کے اصول توڑ بھی سکتے ہیں۔
یہ سب کچھ ان کے اس وقت کام آئے گا جب وہ خود عملی زندگی میں قدم رکھیں گے، ماں باپ بنیں گے۔
ایک وقت آئے گا جب وہ جان جائیں گے کہ استادوں کا کام ہے علم دینا اور ماں باپ کا کام ہے اولاد کو یہ سکھانا کہ اس علم کو سمجھنے اور اس کو عملی زندگی میں استعمال کرنے کے لیے ہمیں کس راستے پر چلنا ہے؛ کیا اصول اور طریقے اپنانے ہیں۔
فرق واضح ہے۔ صرف سمجھنے کی ضرورت ہے۔